نام کتاب :فساد اور دیگر نظمیں
شاعر : ڈی ۔کے ۔شیخ ۔مراٹھی سے اردو ترجمہ : اسلم مرزا
تبصرہ نگار : رفیق جعفر (پونہ)
اورنگ آباد (مہاراشٹر) کے اسلم مرزا پیشے سے وکیل ہیں ۔ اردو کے علاوہ انگریزی اور مراٹھی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع اور لسانی شعور خاصا ہے۔ اردو ادب سے خاص دلچسپی کے سبب تخلیق ، تحقیق اور تنقیدِادب سے شغف رکھتے ہیں۔ ان اصناف میں عرصۂ دراز سے تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ ایک ڈیڑھ دہے سے تحقیق کی طرف اِن کا رجحان زیادہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے ادبی تحقیق اور سماجی و تاریخی تحقیق پر کافی کام کیا ہے جو مضامین اور کتابی صورت میں منظرعام پر آکر قارئین ، ناقدین سے داد بھی پاچکا ہے۔ اب ایک محقق کی حیثیت سے بھی ان کی شہرت مسلمہ ہے ۔ اس کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے بھی یہ جانے مانے جاتے ہیں۔ انگریزی اور مراٹھی زبانوں کے معیاری شعری ادب کو انھوں نے اردو روپ دے کر اردو ادب کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’فساد اور دیگر نظمیں‘‘ اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔
اسلم مرزا نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں کوی پرشانت اسنارے کی مراٹھی نظموں کا ترجمہ کر کے ’’مورپنکھ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس پر میرے علاوہ اور بھی کئی مبصروں نے بے لاگ تبصرے کیے تھے۔ اس کتاب کی پذیرائی کی وجہ سے انھیں اچھے مترجم کی حیثیت سے مان لیا گیا تھا۔ اب ۲۰۱۹ء میں مراٹھی کے مشہور شاعر ڈی۔ کے۔ شیخ کی بے باک نظموں کو اردو والوں سے متعارف کروایا ہے۔ گو یہ نظمیں اردو مزاج سے میل نہیں کھاتیں لیکن اِن کا مواد توانا اور مقصدی ہے اور ان نظموں کا اظہار ہمارے اردو کی ترقی پسند تحریک کے رنگ اور آہنگ کا
ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ساری نظمیں، نثری نظمیں ہیں۔ جنھیں پہلے پہل تسلیم نہیں کیا گیا مگر دھیرے دھیرے نثری نظموں نے اپنا لوہا منوالیا ہے اور باضابطہ طور پر اسے اصنافِ سخن کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اب اردو کے شعراء بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرنے لگے ہیں۔ یہ کتاب ایک لحاظ سے وقت پر چھپی ہے ایک دہے پہلے چھپتی تو پذیرائی مشکل تھی۔
یہ مجموعہ ڈی۔ کے۔ شیخ کی کویتاؤں کے مشہور سنکلن ’’دنگل آنی اِتر کویتا‘‘ میں شامل نظموں کا اردو روپ ہے۔ مترجم اسلم مرزا نے ترجمہ کو اصل تک پہنچانے میں بڑی محنت کی ہوگی، تبھی شیخ صاحب کی یہ نظمیں اُن ہی کی کہی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جنھوں نے اِن کی مراٹھی نظمیں پڑھی یا سنی ہوں گی وہ اگر اسلم مرزا کی ترجمہ شدہ نظمیں پڑھ لیں تو داد دیئے بغیر نہیں رہیں گے۔
ڈی۔ کے۔ شیخ کی نظمیں راست گوئی کی عمدہ مثالیں پیش کرتی ہیں۔ ان کے نظمیہ فن میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی تصنع نہیں ، بناوٹ نہیں، جھوٹ نہیں۔ پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظمیہ سوچ شاعر کی نہیں بلکہ ہماری اپنی سوچ ہے۔ کسی شاعر کو پڑھ کر یا سن کر اگر سامع یا قاری کو ایسا محسوس ہوتو اسے شاعر کی کامیابی سمجھنا چاہیے۔ میں نہیں جانتا کہ ڈی۔ کے۔ شیخ کا مراٹھی ادب میں کتنا نام ہے ، کیا مقام ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ ہر زبان کے ہر اُس آدمی کو یہ نظمیں متاثر کریں گی جو اپنے وطن سے پیار کرتا ہے اور ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کو پسند کرتا ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بقول ڈاکٹرگریش مورے : ’’یہ شاعری صرف جذبات کا اظہار نہیں بلکہ نظریاتی تفکر سے آشنا کرنے والی نظموں کا مجموعہ ہے۔ زبان کا نرم اور دھیما لب و لہجہ کیسے برتا جائے اور لفظوں کے تانے بانے سے انسان ، انسان کو کیسے مربوط کیا جائے۔ یہ نظمیں ہمیں مؤثر انداز میں بتاتی ہیں۔‘‘
ڈی۔ کے۔ شیخ کی اس کتاب میں شامل نظموں کی اہمیت کی بات نکلی ہے تو بطور نمونہ یہاں چار نظمیں پیش کی جارہی ہیں۔ ملاحظہ کریں اور سوچیں کہ یہ کوی کس منفرانداز میں بات کرتا ہے۔
(۱) ’’ماں‘‘ : صبر و تحمل کے ساتھ دھوپ برداشت کرتے ہوئے / خوب کیا میرا لاڈ پیار /ایسے حفاظت کی جیسے ہتھیلی پہ آیا آبلہ/ خود تو فاقے کیے/ لیکن پروان چڑھایا ، تعلیم دلوائی / گردن اٹھا کر اس دنیا میں/ اس نے مجھے جینا سکھایا / میری پریشانیوں کے دنوں میں / لوگوں نے جو جی میں آیا ، کہا / ماں نے لیکن زخموں پر میرے ہمیشہ پھاہا رکھا / بہت کچھ دیا مجھے بھولی بھالی پارسا ماں نے / لوٹا نہیں سکتا میں کبھی اس زندگی میں/ جو کچھ اس نے مجھے دیا۔
(۲) ’’چلئے شروعات ہوئی‘‘ : ہندوستان کے مسلمانوں کو/سخت گالیاں دینے کے بعداحساس ہوا اسے/اپنے درمیان ایک مسلمان کی موجودگی کا/تو حواس باختہ ہوکر/اس نے کہا’’معاف کیجیے‘‘/میں ہنس دیا/میں نے کہا ’’اس باب میںہم بھی کچھ کم نہیں ہیں/لیکن کہیں نہ کہیں یہ رُکنا چاہیے‘‘/’’رکے گا؟‘‘ اس کا سوال۔/’’قطعی رکے گا‘‘ میرا جواب۔/ہم اور تم اگر اس کی ابتدا کریں تو …/ایک میٹھی ہنسی/مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے۔/’’چلئے شروعات ہوئی‘‘/میں نے دل ہی دل میں کہا۔
(۳) ’’وہ مجھے‘‘ : اس نے مجھے ’’بے وقوف‘‘ کہا/میں زیرِلب مسکرا دیا۔/اس نے مجھے ’’نالائق‘‘ کہا/میں نے اسے نظرانداز کردیا۔/اس نے مجھے ’’کمینہ‘‘ کہا/جانے دو … کہنے دو … میں نے کہا/دل ہی دل میں۔/اس نے مجھے ’’پاکستانی‘‘ کہا/ایک لمحہ کا بھی توقف نہ کرتے ہوئے/میں نے اس کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کردیا۔
(۴) ’’لڑائی جھگڑے کا سوال ہی کہا ں ہوتا ہے‘‘ : اپنا دھرم تو رکھ مندر میں/میں اپنا مذہب رکھتا ہوں مسجد میں/تو اپنا دھرم رکھ اپنے سینے میں/میں رکھتا ہوں اپنا مذہب اپنے دل میں/مت آنا تم راستے پر اپنا دھرم لے کر/میں بھی نہیں آؤں گا۔/تم سمجھو میرا مذہب کیا ہے/سمجھ لیتا ہوں میں بھی تمھارا/صاف ستھرے دل سے/کسی بھی رنگ کا چشمہ/آنکھوں پر نہ چڑھاتے ہوئے/پھر لڑائی جھگڑے کا/سوال ہی کہاں آتا رے …؟
ایسی مثبت فکروالی نظمیں ۱۲۴ صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ڈی کے شیخ نے طرح طرح اپنے قارئین کو انسانیت، اخوت اور بھائی چارے کا درس دینے کی کوشش کی ہے۔ وطن پرستی کی ترغیب دی ہے۔ یہ خالص ہندوستانی معاشرے کی نظمیں آزادی سے اب تک ہونے والی نفرت کی داستانیں یاد دلاتی ہیں اور شاعر کی فکر میں مایوسی نہیں جیون جینے کی ہمت ہے۔ دلوں میں مایوسی کے زنگ کو صاف کرنے کے نسخے ہیں۔ ایک سچے ہندوستانی مسلمان کے دلی جذبات ان نظموں میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ شاعر کی راست گوئی قارئین کی ذہن سازی کرتی ہیں اور امن ، آشتی ، اتحاد اور بھائی چارگی کا پیغام دیتی ہیں۔ اسلم مرزا نے ڈی کے شیخ کی ان نظموں کو اردوزبان کا پیراہن دے کر اردو سماج کو ایک تحفہ دے کر عصرحاضر کی ایک سماجی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچے اور زیادہ سے زیادہ نظروں سے گزرے تو نظموں کا مقصد پورا ہوگا۔ آخر میں’ ’پیش گفتار‘‘ کے تحت لکھے ہوئے مترجم اسلم مرزا کے مضمون کے ایک اقتباس پر مبنی
اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں : ’’فساد اور دیگر نظمیں‘‘ میں شامل اردو تراجم پڑھتے ہوئے آپ ایک ایسے حساس، خوددار اور نیک مسلمان مراٹھی شاعر سے متعارف ہوں گے جو ہندو اور مسلمان دونوں کو نہایت تندوتیز لہجے میں امن اور شانتی کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ مسلمانوں کے دلی جذبات کو احساسِ ذمہ داری اور حق گوئی و بے باکی کے ساتھ مراٹھی حضرات تک پہنچاتا ہے۔اس کتاب کی قیمت ہے ۲۰۰؍روپے اورپبلشرہیں : مسز دلشاددلاور شیخ ، شمس چوک، خواجہ نگر، عثمان آباد ۔ 431501
٭٭٭
0 comments: