Wednesday, March 25, 2020

            اک پتّا۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا تنہا

اک پتّا۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا تنہا


اقبال سلیم

NO,97,AIWAN-E-THERA.
4TH MAIN  ,8TH CROSS,
J.H.B.C.S LAYOUT
J.P.NAGAR POST,
BANGALORE-560111

            اک پتّا۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا تنہا 

قریب کی مسجد میں اذان کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھل گئی ۔اُس نے کراہ کر کروٹ بدلنے کی کوشش کی مگر اس کی پشت تختہ ہوگئی تھی۔ اس کے زرد اور سُتے ہوئے چہرے پر خون کی ایک بوند تک نہ تھی۔ زندگی میں رونما ہونے والے تلاطم کا خمیازہ اس کے چہرے اور ماتھے پر تہہ بہ تہہ جھریوں ،شکنوں اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کی شکل میں نقش ہو کر رہ گیا تھا۔سرہانے تپائی پر پڑے ہوئے ڈبل روٹی کے بے شمار ریزوں اور ڈھکے ہوئے گلاس کی تہہ میں دودھ اور شکر کے من و سلویٰ کی رمق کو کالی چیونٹیاں دیوانوں کی طرح چاٹ رہی تھیں۔وہ دو پہر کو ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے حلق سے اُتار کرلیٹی اب مغرب کی اذان سن کر بھی اُٹھ نہیں پائی تھی۔مغرب کو مانگی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔اس نے پڑے پڑے سر پر پلّو درست کر کے اپنے کانپتے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھا دئے ۔’’اے میرے اللہ! اب میں تجھ سے موت کے سوا کچھ نہیں مانگوں گی،بس مجھے اُٹھا لے، اب مزید دُکھ سہنے کی مجھ میں سکت نہیں ،یہ صدمے، یہ دُکھ کے انبار، آخر یہ میرے کس گناہ کی سزا ہیں میرے مولا!‘‘ 

دعا اور شکوے کے دو بول کے سوا اللہ سے کہنے کے لیے اس کے پاس اب رہا ہی کیا تھا ۔اس کی ویران صحرا جیسی آنکھوں سے دو لرزتی کانپتی بوندیں اس کی کنپٹیوں کے کناروں پر ڈھلک گئیں۔

اب کمرے میں کاجل سا بھرنے لگا تھا۔صبح کی گئی دونوں چڑیاں چھت کے سوراخ میں لوٹ کر ایک دوسرے کو دن بھر کی سر گزشت سنا رہی تھیں۔ وہ کالے رنگ کی تتلی بھی کھڑکی کی راہ سے اندر داخل ہو کر اس کے گرد چند چکر لگانے کے بعد مطمئن ہو کر ایک گوشے میںدیوار سے چمٹ چکی تھی۔کھڑکی سے آتے ہوئے ہوا کے جھونکے لمحہ بہ لمحہ سرد ہوتے جا رہے تھے۔اس نے گردن موڑ کر تپائی پر رکھے ہوئے چراغ کو حسرت سے دیکھا ۔خود اس کی حیثیت چراغ سے کیا کم تھی۔وہ بُجھ چکا ہے ۔یہ ابھی ٹمٹما رہا ہے۔

بجلی صبح سے بند تھی۔اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ چراغ جلا دے۔چنی نہیں آئی، اس نے ایک آہ بھر کر سوچا، وہ ہوتی تو چراغ جلا دیتی،پوتا ستا رہا ہو گا۔گٹھری کی طرح دن بھر لادے پھرتی ہے ،بے چاری۔ دو گھڑی بھی اس کے پاس 

آبیٹھے تو اس کے لہو کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔اس کی طنز کے زہر میں بجھے ہوئے تیر وہ اپنے سینے میں اس طرح سمولیتی ہے جیسے وہ اس کا سینہ نہ ہو نرم نرم دلدل ہو ۔اس دلدل سے کوئی آواز نکلتے اس نے نہیں سنی تھی ’’ہم کیا کسی کے بکاؤ غلام ہیں ،کسی کا دیا کھاتے ہیں جو دن رات اس کنجوس بڑھیا کے پنڈے سے لگے رہیں۔ ایک چھوکری کو رکھنے کہو تو دم نکلتا ہے۔ کاہے کو رکھیں گے ماں!یہاں ہم بندھوا نوکر جو ہیں‘‘۔

بہو سچ کہتی ہے ،چنی بس اس کی کرایہ دار ہے وہ اس کی کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی وہ کسی بندھوا نوکرانی کی طرح اس کی خدمت کرتی آرہی ہے۔بندھوا نوکر، باندی ،خدمت گار ،چنی نہ ہوتی تو وہ اب تک بستر پر پڑے پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی ہوتی۔دو برس ہوئے اس نے اپنا آدھا گھر اُسے کرایہ پر اُٹھا دیا تھا۔اورخود آدھے گھر میں سمٹ سمٹا کر رہتی آرہی تھی۔چنی نے اسے بتایا تھا کہ بیاہ کے تیسرے ہی برس اس کے سہاگ کو گہن لگ گیا تھا۔مرد کے مرتے اس پر زمین تنگ ہو گئی تھی،ساس اُٹھتے بیٹھتے اسے طعنے دیتی تھی کہ وہ منحوس ہے،آتے ہی میرے بیٹے کو کھا گئی۔ایک دن تنگ آکر اس نے گھر چھوڑ دیا ۔سوتیلی ماں اور زن مرید باپ نے اسے وداع کر کے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔لہٰذ اُن کا ہاتھ تھامنے کے بجائے اس خود دار عورت نے اپنے پاؤں پر آپ کھڑی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ایک جھونپڑا کرائے پر لے کر ایک کارخانے میں بیڑیاں بنا نے لگی اور اپنا سب کچھ اپنے سال بھر کے بچے پر تج دیا۔ بھر پور جوانی ہوس کے تیروں کے آگے سینہ سپر ہو گئی تو ساری یلغار اپنی موت آپ مرگئی۔ یہ آپ بیتی سن کر چنی کے روپ میں اسے خود اپنی روح نظر آئی تھی۔وہ اس کے لیے اپنے دل میں نرم نرم گوشہ محسوس کرنے لگی۔چنی نے اس کے گھر میں بہو بیٹے اور پوتے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے اسے کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ ایک غیر قوم کی عورت ہے۔وہ ذات و مذہب کے احساس سے بلند ہو کر قدم قدم اسے سہارادیتی اور دردبانٹتی آرہی تھی۔چند ماہ قبل جب اُس کے گردے جواب دینے لگے۔ وہ بستر سے لگ گئی۔ تو چنی بہو کی طنز کے تیروں کی پرواہ کیے بغیر اس کی تیمار داری کرتے ہویے اس کے لیے ایک نور ڈھلا ہوا پیکر بن گئی تھی۔

’’اللہ اسے سلامت رکھے‘‘چنی کے لیے اس کے دل سے دعا نکلی’’ہاں!ایک ہی تو ہے چنی،میری ماں، بہن، بیٹی اور سہیلی ہے۔‘‘اس غیر قوم کی بے آسرا اور بے 

بس عور ت کے لیے اس نے سارے رشتے تج دیے تھے۔اللہ اسے سلامت رکھے۔ ‘‘ 

دفعتاً دروازہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھلا ،چنی آ گئی تھی۔اس نے چراغ جلایا تو کمرے میں ہلکا ہلکا اُجالا پھیل گیا۔’’ماں جی! مجھے ذرا دیر ہو گئی ،کیا کروں، پوتا صبح سے رو رہا تھا،نظر ہو گئی ہے۔ابھی ابھی مسجد گئی تھی دم کروانے ،اب ذرا سو گیا ہے تو آگئی ہوں۔تم ابھی تک ایسے ہی پڑی ہو؟ہے رام! رات ہونے کو آئی‘‘۔

اس نے اُسے سہارا دے کر دیوار کے سہارے بٹھا دیا۔’’روٹی سینک دوں؟‘‘

وہ محبت و مروّت کے رس گھولنے والے یہ بول سنتی اور مسحور ہوتی رہی۔ ’’ مجھ سے اب کچھ بھی کھایا نہ جائے گا چنی‘‘۔

’’ڈبل روٹی کھاتے کھاتے میرا جی اوب گیا ہے ،اب مجھے قے ہوجائے گی‘‘۔

’’تو کیا بھوکی سوؤگی! ہے رام، دو پہر کے بچے ہوئے ٹکڑے ہی سینک دیتی ہوں ،دودھ سے کھا لو۔صبح آکر کھچڑی بنا دوں گی۔پودینے کی چٹنی بھی بنا دوں گی رات میں ،بھوکی سوؤگی تو اور کمزور ہو جاؤگی۔رام کرے جلدی اچھی ہو جاؤ‘‘۔

’’اچھا کھا لوں گی،اللہ تجھے خوش رکھے چنی۔جتنا سکھ تو نے مجھے دیا ہے اس سے دُگنا سکھ اللہ تجھے دے‘‘

اور گولیاں !’’وہ بھی کھالوں گی ،مجھے ذرا سہارا دو ،میں اُٹھوں گی‘‘۔ 

چنی کے سہارے باتھ روم سے لوٹ کر بستر پر بیٹھنے کی کوشش میں گرتے گرتے بچی۔ ’’آہ چنی! اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب میرا وقت پورا ہو چکا ہے،میںاب زیادہ دیر نہیں جیوں گی‘‘۔ 

’’ماں جی!‘‘۔چنی کا دل بھر آیا ’’کیوں بد فال منہ سے نکالتی ہو ، گولیاں برابر کھاؤگی تو جلد اچھی ہو جاؤگی‘یاد کروڈاکٹر نے کیا کہا تھا ۔اچھا تم بیٹھوِمیں ابھی روٹی سینک دیتی ہوں ،گولیاں بھی کھلا دوں گی‘‘۔

وہ روٹی اور گولیاں کھلا کر اور تسلّی دے کر باہر سے دروازہ بھیڑ کر چلی گئی تو وہ خود بھی بستر پر دراز ہو گئی۔ 

گھڑی بارہ بجائے تو وہ چونک پڑی ۔ماحول پر گہرا سناٹا مسلط تھا، چھت کی سوراخ میں چڑیوں کی جگ بیتی بھی ختم ہو چکی تھی۔اس نے ہاتھ پھیلا کر چراغ گل کردیاتو رہے سہے اُجالے کو اندھیرے نے نگل لیا ۔اب اس کی ویران آنکھیں اندھیرے کو تک رہی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ان اندھیرے خلاؤں میں یادوں کی جگ  مگ کرتی کہکشاں سی سجتی چلی گئی ۔اُفق پر تیس برس قبل کا وہ زمانہ بدلیوں سے چاند کی طرح اُبھر آیا۔

تیس برس پہلے دنیا تو ایسی نہیںتھی،اس چمن میں کانٹے نہیں تھے،مسائل کے اژدھے نہیں تھے،اس چمن میں تو سکون کی مہکتی ہوئی بہار تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بہار کبھی نہ ختم ہونے والی خزاں کی چاپ سن رہی ہے۔ایک وقت آئے گا جب اس کا وجود اس خزاں رسیدہ چمن کے ایک درخت سے آخری پتے کی طرح ہو جائے گا،زرد اور خشک اور لرزاں ایک پتہ،تنہا تنہا۔

یادیں تو سکھیاں ہوتی ہیں ،جو تنہائی کے جاں گسل اندھیروں میں چراغ جلاجاتی ہیں۔دفعتاً تنہائی کے اس اندھیرے میں یاد کا ایسا ہی ایک چراغ جل اُٹھا اور ممتاز کا سراپا کسی شہاب ثاقب کی طرح ٹوٹ کر اس کے ذہن سے آ ٹکرایا۔اسے اپنی سہاگ رات یاد آئی جب ممتاز نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا تھا’’ریحانہ! میں آج خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان تصور کر رہا ہوں ،تمھارے چہرے سے پھوٹتا ہوا نور میری روح کی گہرائیوں میں اُجالا کئے دے رہا ہے۔ میں اپنے چمن کی اس بہار کو دیکھ رہا ہوں جس کا مجھے شدّت سے انتظار تھا‘‘۔

ممتاز نے غلط نہیں کہا تھا۔اگلے ہی برس سلطانہ نے اُن کی محبت کی یادگار کی شکل میں جنم لیا مگر ممتاز کوشاید معلوم نہ تھا کہ بہار سدا بہار نہیں ہوتی ۔اس کی پشت پر خزاں ہوتی ہے جو دبے پاؤں چلی آتی ہے۔ یہ زندگی کی خوشیاں سرائے کے مسافروں کی طرح ہوتی ہیں جو ملتی ہیں اور بچھڑ جاتی ہیں۔خوشی کی دولت تو روزِ ازل اللہ میاں کے یہاں بندوں کو تُل کر ملتی ہیں اور اسے ہیرے جواہرات کی طرح صندوقوں میں بند کر کے رکھا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ اس بہار کو خزاں نے نگل لیا۔ شادی کو پانچ برس ہوئے تھے کہ ایک شام سفید چادر میں ڈھکا ہوا ممتاز کا بے جان جسم بر آمد میں لاکر لوگ رکھ گئے۔ دفتر سے اسکوٹر پر گھر آتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے موت کا نوالہ بنا دیا تھا۔لوگ خاموش کھڑے اسے تک رہے تھے۔وہ منہ سے کچھ بولے، روئے ،چیخے چلّائے ،مگر شاید اس کی قوتِ گویائی ختم ہوچکی تھی‘ اس کی آنکھوں کے کنوؤں میں آنسو نام کی کوئی بوند نہ تھی ۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح ممتاز کے بے روح جسم پر گر پڑی تھی ۔

اب وہ سلطانہ کے ساتھ اتنی بڑی دنیا میں تنہا رہ گئی۔سلطانہ کو اس کی اور ممتاز کی محبت کی چار سالہ یاد گار ،اسے ممتاز سے ایک گھر کے سوا کچھ نہ ملاتھا۔ممتاز کے حاتمی مزاج کا اس کے بھائیوں نے خوب فائدہ اُٹھایاتھا۔وہ جونکوں کی طرح اسے اس وقت تک چوستے رہے تھے جب تک اسے قبر میں دبا نہیں دیا گیا۔ وہ آئے اور مگر مچھ کے آنسو بہاکر چلے گئے ،کبھی پلٹ کر نہ پوچھا کہ اس کے پسماندگان پر کیا گزررہی ہے۔ وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک اسکول میں پڑھانے لگی ۔پھر اس کی ذات کسی سیّارے کی طرح متحرک ہو گئی اور اس وقت تک نہ رُکی جب تک کہ سلطانہ نے ڈاکٹر بن کر اپنا ذاتی کلینک نہیں کھول لیا۔اب اسے اس کی شادی کی فکر نے آگھیرا۔بڑی تلاش و جستجو کے بعد اس نے اس کے لیے ایک سافٹ ویر انجینئر کا انتخاب کیا۔

وقت کی ہوا زندگی کی کتاب کے اوراق الٹتی رہی۔دن بظاہر سکون سے گزرتے رہے پھر سلطانہ کی آنکھوں میں اُبھرنے والی اُداسی کے سائے اسے 

کاٹنے لگے۔ایک دن اس کے اصرار پر اس نے بتایا کہ ظہیر نہایت خود غرض اور حریص آدمی ہے۔ وہ اس پر نہ صرف مزید جہیز لانے کے لیے ظلم ڈھا رہا ہے بلکہ یہ دباؤ بھی ڈال رہا ہے کہ ہر ماہ اپنی بے سہارا ماں کو دینے والی دو ہزار کی رقم بند کردے۔

یہ سن کر اس کے سارے وجود میں کانٹے بھر گئے۔ اس نے اپنے سینے پر صبر کی سِل رکھتے ہوئے سلطانہ کو مشورہ دیا کہ وہ ظہیر کی بات مان جائے مگر مزید جہیز کے مطالبے کی تکمیل کا کوئی راستہ اسے نظر نہ آتا تھا۔اپنی عمر بھر کی پونجی اس نے سلطانہ کو بنا نے سنوارنے میں صرف کردی تھی۔

ایک شام ظہیر تنہا اس کے پاس آیا ۔وہ کافی پریشان معلوم ہو تا تھا ،اس نے بتایا کہ’’ سلطانہ اسٹوبھ سے بُری طرح جھلس گئی ہے وہ اسے اسپتال میں داخل کر آیا ہے‘‘۔ 

اسپتال میں سلطانہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی۔اس نے تنہائی میں بمشکل اتنا ہی بتایا کہ ایک جھگڑے کے دوران ظہیر نے اسے مٹی کا تیل چھڑک کر جلایاتھا۔اس سے پہلے کہ وہ پولیس کے سامنے کوئی بیان دے وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ اس نے نیم دیوانگی کے عالم میں پولیس کوسلطانہ کا بیان سنایا اور یہ بھی کہا کہ گھر میں کوئی اسٹوبھ نہیں تھا۔یہ سراسر جہیزہراسانی کا کیس ہے مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور اسے اتفاقی حادثہ بتا کر کیس بند کر دیا گیا۔ وہ در بدر بھٹکتی اور فریاد کرتی رہی ۔اس نے اپنے حلقے کے ممبر اسمبلی سے مدد کی بھیک مانگی مگر بے سُود ۔پھر کسی کے بتانے پر وہ انسدادجہیز ہراسانی مظالم کمیٹی کے آگے پیش ہوئی اور بیان دیا۔اس پر اسے بتایا گیا کہ وہ اپنا بیان کنٹری زبان میں تحریر کر کے لائے۔ اس سلسلے میں وہیں موجود ایک مسلمان خاتون ممبر سے رجوع کرنے کو بھی کہا گیا جو دیر سے اس کا بیان سن رہی تھی مگر اس نے اس کی درخواست مسترد کردی۔ یہ وہی لوگ تھے،سیاسی بھکاری جنہوں نے عوام کے ووٹوں کی خیرات کے بل پر خود کو زندہ رکھا اور اقتدار کی کرسی حاصل کی تھی لیکن آج اقتدار کے نشے میں وہ انہیں پہچان بھی نہیں پارہے تھے۔ جنہوں نے انہیں ووٹوں کی بھیک دی تھی۔

جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے انصاف کہیں نہیں مل سکتا تو اس کی کمر ٹوٹ گئی ،اس کی صحت بتدریج متاثر ہونے لگی، وہ اب اتنی بڑی دنیا میں خود کو تنہا محسوس کررہی تھی۔ خزاں رسیدہ درخت کے آخری پتے کی طرح ،یکتا و تنہا۔پھر اسے گُردوں کی خرابی کے موذی مرض نے آلیا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے دونوں گُردے جواب دیتے جا رہے ہیں تو اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وہ دل سے چاہتی بھی یہی تھی کہ اللہ کسی بہانے اسے اس دنیا سے اُٹھا لے۔اب وہ چھ ماہ سے بستر سے لگی اپنی باری کی منتظر تھی۔ اس کی علالت کی خبر اس کے دونوں دیوروں تک بھی پہنچی جو اپنے بھائی کے مرتے آخر شب کے تاروں کی طرح غائب ہو گئے تھے۔ ایک دن وہ اس کی عیادت کو آئے ،مزاج پُرسی کی، افسوس کا اظہار کیا، آخر میں چلتے چلتے یہ بھی کہا’’اب جب کہ اس کا وارث نہیں ہے،لہٰذا اپنے وصیت نامے میں یہ گھر اُن کے نام کردے‘‘۔یہ ابن الوقتی کی انتہا تھی۔اس کا جی چاہا کہ اُن کے منہ پر تھوک دے مگر ضبط کر گئی اور خاموش ہو رہی۔

دفعتاً اس کی خوابیدہ آنکھوں تلے سجی یادوںکی کہکشاں دُھندلا گئی۔ بستر پر پڑے پڑے اسے اپنے اندر سے کوئی جوار بھاٹا سا اُٹھتا ہوا محسوس ہونے لگا اور سارا جسم پسینے میں شرابور ہوتا چلا گیا ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ذہن تاریک خلاؤں میں ڈوبتا چلا گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے حس و حرکت ہو گئی۔

اگلی صبح چنی نے دروازہ کھولا تو وہ معمول کی طرح اپنے بستر پر خاموش پڑی چھت کو تک رہی تھی۔چنی نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھاجو وہ برف کی طرح  ٹھنڈاتھا اور سینہ کسی گہرے سمندر کی طرح خاموش تھا۔

’’ماں جی!‘‘چنی نے گھبرا کر اُسے جھنجھوڑا ’’اُجالا ہو گیا ہے اُٹھ کر منہ ہاتھ دھولو ۔لیکن میں پانی لاتی ہوں کھچڑی بنادوں گی اور چٹنی بھی،پودینہ لیتی آئی ہوں‘‘۔

مگر اس کی نیند نہیں ٹوٹی ،وہ ابدی نیند سو رہی تھی۔ چنی کی چیخ نکل گئی ، مغرب کو مانگی ہوئی دعا قبول ہو چکی تھی۔خزاں رسیدہ درخت کا آخری پتہ بھی ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا ۔اب اس کے گرد بھیڑ اکٹھا ہونے لگی۔لوگ افسوس کے بول کے دوران اس کے گُن گا رہے تھے۔اُس کے آخری دیدار کے لیے آنے والوں میں ایک وکیل صاحب بھی تھے وہ اس کے جسد خاکی کے قریب چند منٹ خاموش کھڑے اُسے خاموش عقیدت پیش کرنے کے بعد لوگوں کی طرف مڑے’’آپ شریمتی چنّما دیوی عرف چُنّی کون خاتون ہیں؟

چُنّی نے چونک کر حیرت سے اُن کی طرف دیکھا اور ساڑی کے پلّو سے آنکھوں آنکھیں صاف کرتے ہوئے جواب دیا ’’میرا ہی نام چُنّی ہے‘‘۔ 

وکیل صاحب نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا ’’مرحومہ ریحانہ بیگم نے مدت ہوئی اپنا وصیت نامہ میرے پاس محفوظ کیا تھا ،انہوں نے اپنی موت کے بعد کفن و دفن کی ذمہ داری بھی سونپی ہے۔بینک میں ان کی پچاس ہزار سے بھی زائد رقم جمع ہے۔تدفین کے اخراجات سے جو رقم بچے وہ ان کی ہدایت اور خواہش کے مطابق ساری رقم اس یتیم خانے کو دے دی جائے گی جہاں انھوں نے پرورش پائی تھی ۔اب رہا ان کا یہ گھر تو وہ سارے کا سارا اپنی با ہمت،حوصلہ مند ،بے غرض اور درد مند مُنہ بولی بہن شریمتی چنّما دیوی عرف چُنّی کے نام کر گئی ہیں۔اب وہ قانونی طور پر اس کی بلا شرکت غیرے واحد وارث ہوں گی۔

مجمع پر سناٹا چھا گیااس سناٹے میں صرف چُنّی کی لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ہوئی سسکیوںکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، جو اپنے منہ میںپلّو ٹھونسے کسی بچے ہی 

طرح بلک بلک کر رورہی تھی۔

وکیل صاحب اس کی طرف پُر تحسین اور شفقت آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔اُن کے لبوں پر یہ مصرع تھا :
؎   وفاداری بشرط استواری اصل ایماںہے٭٭٭

0 comments: